Awqaat-e-Namaaz

Namaaz ke awqaat

س:محترم و مکرم مفتی صاحب دامت برکاتہم! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ امیدہے بخیر و عافیت ہوں گے۔ اللہﷻ آپ کی مساعئ جمیلہ کو قبول فرمائے، اور صحت و عافیت کے ساتھ امت کو آپ کی فیوض سے مستفید فرمائے، آمین۔ عرض یہ کہ اللہﷻ نے نمازوں کے اوقات متعین فرمائے ہیں، جن کی پابندی کا حکم ہے۔ {إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا} [النساء: 103] ” بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات مقررہ میں ادا کرنا فرض ہے۔“ اور شریعت نے آسانی و ہر ایک کی رسائی کے لیے آسمانی علامات کو اوقات الصلاۃ کے لیے مقرر فرمایا ہے، جن کا تعلق مشاہدہ سے ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں مشاہدہ ممکن نہ ہونے کی وجہ سے عموما جنتری و تقویم پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے علاقۂ رتناگیری میں جتنی تقاویم رائج ہیں وہ بالعموم ممبئی کے اوقات کے اعتبار سے چھپی ہوئی ہیں۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ ہر علاقہ کے طول البلد و عرض البلد کی بنیاد پر اوقات صلاۃ میں فرق پڑتا ہے، اس اعتبار سے ممبئی و رتناگیری کے اوقات میں کافی فرق معلوم ہوتا ہے؛ اس وجہ سے مناسب معلوم ہورہا ہے کہ علاقۂ رتناگیری کے لیے ایک الگ سے تقویم مرتب کی جائے، نیز اس وقت مسجدوں میں ڈیجیٹل گھڑیاں عام ہورہی ہیں، اسی طرح موبائل سوفٹ ویر بھی عام ہوچکے ہیں، جن کا مدار علاقہ کے طول البلد اور عرض البلد پر ہوتا ہے، اور ڈیجیٹل گھڑیاں و سوفٹ ویر دونوں کے اوقات اور مسجدوں میں رائج تقویم میں تفاوت نظر آتا ہے۔ اسی طرح عام تقاویم میں رمضان المبارک میں سحر ی و افطار کے اوقات سال بھر کے صبح صادق و غروب آفتاب کے بالمقابل احتیاطا پانچ منٹ کے فرق کے ساتھ لکھے جاتے ہیں، پھر خصوصیت سے رمضان کا ٹائم ٹیبل چھپانے والے حضرات اس احتیاطی وقت کو اصل وقت جان کر مزید پانچ منٹ کی احتیاط کرتے ہیں، جس کی وجہ سے اصل وقت سے تقریبا دس منٹ کا تفاوت ہوجاتا ہے، پھر اس پر افطاری کے لیے کہیں دس اور کہیں پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ اس ساری ترتیب میں افطار میں بھی تاخیر ہوتی ہے اور نمازِ مغرب میں بھی اصل غروب کے پندرہ یا بیس منٹ کے بعد ادا کی جاتی ہے، جب کہ افطار اور نمازِ مغرب دونوں ہی میں تعجیل مطلوب ہے۔ دوسری طرف پانچ نمازوں میں سے عصر کے علاوہ تمام نمازوں کے اوقات اس وقت جدید فلکیات کا بھی موضوع ہے، مثلا طلوعِ صبح صادق، طلوعِ آفتاب، استواء شمس، غروبِ آفتاب وغیرہ، چناں چہ اس وقت کے جدید فلکیات کے مطابق (جن کی بنیاد طول البلد و عرض البلد پر ہوتی ہے۔) جب مروجہ تقاویم کو دیکھا گیا تو محسوس ہوا کہ ان میں ایک منٹ سے زائد کا تفاوت ہے، جب کہ ایک منٹ کا تفاوت قابلِ تسامح ہوسکتا ہے۔ بہرحال مذکورہ باتوں کے پیش نظر شہر رتناگیری کے کچھ علمائے کرام نے ساحلِ سمندر سے غروب آفتاب و غروب شفق احمر کا مشاہدہ کیا، اور اس کو جدید فلکیاتی حساب کے مطابق پایا۔ اوقات الصلاۃ کے نقشہ کو درج ذیل اصول کے مطابق مرتب کیا گیا ہے: (1) انتہائے سحر (ختم سحری): جدید فلکیات میں اس کو اسٹرانومیکل ٹوائیلائٹ (Astronomical Twilight) کہتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج میں افق سے اٹھارہ ڈگری نیچے ہوتا ہے۔ جانب مشرق میں اس سے پہلے روشنی نہیں ہوتی اور جانب مغرب میں بھی اس کے بعد کوئی روشنی افق پر باقی نہیں رہتی، چناں چہ جانب مشرق 18؍ ڈگری پر جو روشنی ہوتی ہے اس کو فقہاء کرام صبح کاذب کہتے ہیں۔ اور جانب مغرب 18؍ ڈگری پر جب ساری روشنی ختم ہوجاتی ہے تو اس کو غروبِ شفق کہا جاتا ہے۔ (2) صبح صادق (اذان فجر): جدید فلکیات میں یہ اس وقت ہوتا ہےجب سورج پندرہ ڈگری زیرِ افق جانب مشرق میں ہوتا ہے۔ طلوع سے پندرہ ڈگری زیر افق یقینی طور سے صبح صادق کا وقت ہے۔ دراصل صبح کاذب و صبح صادق کی تعیین میں اکابر علمائے کرام کی دو رائیں کتابوں میں نظر آئی: مولانا رشید احمد لدھیانوی  صاحب ”احسن الفتاوی“ کی رائے ہے کہ اسٹرانومیکل ٹوائیلائٹ (اٹھارہ ڈگری زیر افق جانب مشرق) صبح کاذب کا وقت ہے؛ اس لیے کہ اس سے پہلے آسمان میں کہیں روشنی نہیں رہتی ہے، اور اکثر جنتریوں میں یہی وقت احتیاط کی وجہ سے صبح صادق لکھا ہوتا ہے۔ اور مفتی شفیع صاحب وغیرہ اکابر کی رائے ہے کہ پندرہ ڈگری زیر افق جانب مشرق صبح صادق ہے کہ اس میں یقینی طور پر صبح صادق ہوجاتی ہے۔ اور دونوں رائیں میں فیصلہ کن بات اس لیے نہیں کہی جاسکتی کہ اس وقت تقریبا ہر جگہ فضائی آلودگی کی وجہ سےصبح صادق کا براہ راست مشاہدہ کرنا ممکن نہیں ہے، البتہ مفتی تقی عثمانی   صاحب کی رائے یہ ہے کہ اوقات الصلاۃ کے نقشہ میں دو خانے بنائے جائیں اول میں اسٹرانومیکل ٹوائیلائٹ (اٹھارہ ڈگری زیر افق جانب مشرق) اور اس پر عنوان ”انتہائے سحر“ لکھا جائے اور دوسرا خانہ ”اذان فجر“ کا بنایا جائے جس میں پندرہ ڈگری زیر افق کا وقت لکھا جائے، اور درمیانی وقت میں نہ سحری کھائی جائے، نہ نماز پڑھی جائے۔ (فتاوی عثمانی 1/351 تا 356) مفتی تقی عثمانی  صاحب کی رائے اس لحاظ سے محتاط معلوم ہورہی ہے کہ اگر 18؍ ڈگری پر صبح صادق مانی جائے جو کہ یقینی نہیں ہے تو اس وقت احتیاطا مفسدات صوم سے رُکنا تو اچھی بات ہے، لیکن اسی وقت فجر کی سنتیں یا فرائض ادا کرنا وقت سے پہلے ہوگا۔ اور 15؍ ڈگری یقینی طور پر صبح صادق کا وقت ہے، لیکن اس وقت تک روزہ کے ایام میں کھانا پینا جاری رکھنا روزہ میں شک پیدا کرسکتا ہے۔ اس لیے مفتی تقی عثمانی   صاحب کی رائے پر اوقات الصلاۃ کے نقشہ میں دو خانے بنائے گیے ہیں۔ 15؍ اور 18؍ ڈگری میں تقریبا 13؍ منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اور اس وقت برِصغیر میں عام جنتریوں اور سوفٹ ویر میں 18؍ ڈگری پر صبح صادق لکھا جاتا ہے۔ (3) طلوع آفتاب: اس کو سن رائز (Sun rise) کہا جاتا ہے، جو اخبار وغیرہ میں بھی معروف ہے، البتہ غلس اور اسفار کا مشاہدہ کیا گیا تو پتہ یہ چلا کہ طلوعِ آفتاب سے تقریبا 30؍ منٹ قبل اتنی روشنی عام ہوجاتی ہے، جس کو اسفار کہا جاسکتا ہے۔ (4) استوائے شمس: اس کو نون (Noon) کہا جاتا ہے، جس وقت میں سورج درمیان افق پر ہوتا ہے، جو شرعا وقتِ مکروہ ہے۔ عام جنتریوں میں یہ وقت مذکور نہیں ہوتا ہے۔ اس کو اس لیے لکھا گیا ہے تاکہ استواء اور زوال کے درمیان کا جو وقت مکروہ ہے اس میں نماز سے احتراز کیا جائے۔ استواء کا وقت بہت معمولی ہوتا ہے، البتہ فقہاء نے احتیاطا پانچ منٹ کا وقفہ لکھا ہے، (فتاوی عثمانی 1/357) اس اعتبار سے استواء سے پانچ منٹ بعد زوال کا وقت مرتب کیا گیا ہے، نیز اس وجہ سے بھی کہ عوام بعض جگہوں پر استواء سے پہلے کے وقت کو مکروہ سمجھتی ہے، اور بعض جگہ زوال کے بعد کے وقت کو۔ (5) زوال شمس: استواء سے پانچ منٹ بعد کا وقت۔ (6) عصر شافعی و حنفی: جدید سافٹ ویر کی بنیاد پر اس کو مرتب کیا گیا ہے، اور تقریبا یہی وقت موجودہ جنتریوں میں بھی مذکور ہے۔ (7) اذان مغرب و افطار: اس سے مراد غروبِ آفتاب (Sunset) کا وقت ہے۔ یہ بھی معروف ہے، البتہ نقشہ میں اذانِ مغرب کا وقت غروبِ آفتاب سے احتیاطا تین منٹ بعد کا وقت لکھا گیا ہے؛ تاکہ روزہ افطار کرنے والے بروقت افطار کرکے تعجیل افطار کے حکم پر عمل کرسکیں۔ (8) عشاء شافعی: اس کو بھی نوٹیکل ٹوائیلائٹ (تقریبا پندرہ ڈگری زیر افق جانب مغرب) کہا جاتا ہے، جس کے بعد افق پر سرخی باقی نہیں رہتی ہے، جس کو فقہاء غروب شفق احمر لکھتے ہیں، جو امام شافعی کے نزدیک انتہائے نماز مغرب اور ابتدائے نماز عشاء ہے۔ علاقہ میں اس کا مشاہدہ بھی کیا گیا، نیز جدید فلکیات کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے۔ (9) عشاء حنفی: اس کو بھی اسٹرانومیکل ٹوائیلائٹ (اٹھارہ ڈگری زیر افق جانب مغرب) کہا جاتا ہے، جس کے بعد افق پر کوئی روشنی باقی نہیں رہتی، جس کو فقہاء غروب شفقِ ابیض کہتے ہیں۔ عام جنتریوں میں یہی وقت عشاء کا لکھا ہوا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ تفصیلا ت کی روشنی میں رتناگیری  علاقہ کے لیے اوقات الصلاۃ مرتب کیا گیا، اور اس کو ہر ماہ عام بھی کیا جاتا ہے، اب اس کو سالانہ تقویم کی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے، لہذا مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں آں جناب سے درخواست ہے کہ شریعت مطہرہ کے مطابق جواب دےکر ممنون فرمائیں، عین نوازش ہوگی۔ بینوا توجروا۔ فقط والسلام