Waraasat

Bhai behno zameen khareedna aur ghar banaana to kon maalik hoga?

س: مجھے ایک خوانگی مسئلہ درپیش ہے جس میں آپ اہل علم حضرات قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ آج سے کم و بیش 20 سال پہلے جب ہم بہن بھائیوں میں سے کسی کی شادی نہیں ہوئی تھی اور ہم اپنے والدین کے ساتھ ایک کرائے کے گھر میں رہ رہے تھے تو وہاں محلے میں ایک شخص اپنا مکان بیچ رہا تھا جو عارضی بنا ہوا تھا جس کی مالیت کم و بیشRs.400,000/= روپے تھی تو ہمارے بھائی محمد شاہد جو بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اس نے گھر میں والدین اور بہن بھائیوں سے مشورہ کیا اور بتایا کے یہ مکان سیل ہورہا ہے اس کو لے لینا چاہیے بھائی کے پاس بھی کچھ رقم (ایک لاکھ سے سوا لاکھ روپے) موجود تھی اور باقی رقم کا انتظام کرنے کے لیے انہوں نے سب گھر والوں سے کہا تا کہ ہم لوگ یہ مکان خرید لیں اور پھر کچھ عرصہ اس میں رہ کر اسکو بنوالین گے تو پھر ہم سب گھر والوں نے باقی رقم کا انتظام کیا جن میں سے تقریباً سوا سے ڈیڈھ لاکھ 1،50،000 روپے میری بڑٰی بہن مور بانو نے دیے تھے، اور تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روپے 1،40،000 بڑے بھائی کے علاوہ سب بھائیوں نے دے کر وہ مکان خرید لیااور گھر خریدتے وقت گواہ میں ہمارے ماموں موجود تھے بعد میں جب مکان نام کرانے کا مسئلہ آیاتو بھائی نے والدہ سے پوچھا کہ مکان کس کے نام کرانا ہے تو والدہ نے کہا کہ بیٹا تم دیکھ لو بہتر یہ ہے کہ کاغذات میرے نام پر بنوا لوتو یہ بات یہاں ختم ہوگئی اسکے بعد ہمیں یہ پتا ہی نہیں چلاکہ یہ مکان کس کے نام ہوا ہم وہاں شفٹ ہوگئے بھائی نے کاغذات والدہ کے پاس رکھوادئیے والدہ نے کاغذات اپنے پاس سنبھال کر رکھ لیے تین یا چار سال بعد ہم نے مکان بنانے کا سوچا پھر ہم سب نے مشورہ کیا اور بھائی نے کہا کہ میں اپنے ٹھیکے دار سے بات کر کے کام شروع کرواتا ہوں اس دوران میں جو کماؤنگا وہ گھر بنانے میں لگاؤنگا اور دوسرے بھائیوں سے بھی جو ہو وہ گھر بنانے میں حصہ ڈالیں اور گھر بنانے کے دوران کرائے کے گھر کا کرایہ اور خرچہ اور باقی دوسرے معاملات میں بھی چھوٹے بھائی دیکھیں پھر ہم سب راضی تھے اور خوش تھے کہ اپنا گھر بن رہا ہے اللہ کے حکم سے ہمارا گھر بننا شروع ہوا پہلے تو خود گھر کو اپنے ہاتھوں سے توڑا پھر گھر بننے کا کام شروع ہواپورا گھر بننے میں آدھے سے زیادہ مزدوروں کاکام ہم نے اپنے ہاتھوں سے کیانہ دن دیکھا نہ رات صبح ڈیوٹی کرتے واپس آتے تو اپنے گھر میں مزدوری کرتے والد صاحب نے بھی دو سے ڈھائی لاکھ روپے بڑے بھائی کو گھر بنانے کی مد میں دئیے سب بھائیوں سے بھی جتنا سوسکتا تھا سب نے کیا اور اپنا حصہ ڈالا اور مکان کو ایک خوبصورت گھر بنایا پھر بڑے بھائی کی شادی ہوئی تو اس میں زیادہ تر اخراجات چھوٹے بھائیوں نے کیے کیونکہ گھر کی پہلی شادی تھی سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیاشادی کے بعد بھی بھائی نے گھر میں کوئی اخراجات نہیں دئیے گیس، بجلی، پانی، کیبل یہاں تک کے کھانے پینے کے اخراجات بھی ہم سب ادا کرتے رہے اور کوئی دوسرا کام بھی نکلتا تو ہم چھوٹے بہن بھائی گھر کے خرچ میں سے کراتے تھے اسی دوران اکثر و بیشترہمیں گھر کے تانے سننے کو ملے پھر ہم نے والدہ کو کہاکہ گھر کے کاغذات نکالیں جب نکالے تو پتہ چلا کہ مکان بڑے بھائی محمد شاہد نے اپنے نام کروایا تھا پھر ہم نے اپنے ماموں جو گواہ تھے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ شاہد نے کہا تھا کہ امی سے پوچھ لیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ کاغذات اپنے نام سے بنوالوپھر ہماری والدہ نے ماموں کے سامنے بڑے بھائی محمد شاہد سے بات کی تو وہ غصے میں آگئے اور امی سے کہنے لگے کہ گھر کی بات کوئی نہ کرے یہ گھر میرا ہے جب تک رہنا ہے رہو مگر یہ مت سوچنا کہ کسی کا اس مکان میں کوئی حصہ ہے امی گھبراگئی اور کسی سے کوئی بات نہیں کی اس لیے کہ میرے بچے آپس میں نہ لڑ جائیں دن گزرتے گئے پھر کم و بیش دو سال پہلے ہمارے بڑے بھائی محمد شاہد کو کینسر جیسی مہلک بیماری ہوگئی اور ہم سب مل کر ان کے علاج میں لگ گئے اور ان کے علاج میں ہم نے کوئی کثر نہ چھوڑی جس سے جو ہوا اس نے وہ کیا روحانی علاج، ہومیو پیتھک،ایلوپیتھک، حکیمی علاج سب کچھ کرایا اسی بیماری کے دوران انکا ایک بیٹا پیدا ہوااسکے ساتھ بھی دماغی مسئلہ پیش آیابھائی کے علاج اور انکے بچے کے علاج میں بھی جو اخراجات آئے اس کے علاوہ بڑے بھائی کی فیملی کے کھانے پینے اور دیگر اخراجات سب چھوٹے بھائیوں نے اٹھائے اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے رہے اتنا کیا کہ آج کل کے دور میں کوئی اپنے سگوں کے لیے نہیں کرتااس بات کا پورا محلہ گواہ ہے کہ ہم نے اپنے بھائی کی کتنی خدمت کی ہے اب انکا رضائے الہی سے انتقال ہوگیا ہے اور انکی وراثت میں ایک اہلیہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور الحمد اللہ ہمارے والدین بھی حیات ہیں اللہ پاک ہمارے بھائی کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس مے جگہ دے ہمارے دلوں میں اب بھی اپنے بھائی کے لیے کوئی شکایت نہیں ہے جیسا کہ اب ہمیں ہر بات کا علم ہوچکا ہے اکثر بھابی کہ منہ سے بھی سنا گیا ہے کہ یہ گھر میرا ہے۔ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ گھر ہماری والدہ کے نام ہوجائے یا اس میں ہماری شرعی لحاظ سے کیا اہمیت ہے یہ ہمیں پتا چل جائے تاکہ مستقبل میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہواور گھر میں امن اور سکون رہے آپ معزز علماء کرائے سے گزارش ہے کہ اس بارے میں ہمیں بتایا جائے کہ شرعی حکم کیا ہے۔ شکریہ (01)……والد کا نام عبدالسلام (02)……والدہ کا نام خورشید بانو بہنوں کے نام ترتیب سے (01)……نور بانو (02)……سائرہ بانو (03)……شازیہ بھائیوں کے نام ترتیب سے مرحوم بھائی کی بیوہ (01)……محمد شاہد(مرحوم) ثمرین شاہد(بیوہ) (02)……محمد زاہد بیٹیاں (03)……محمد ساجد (01)……اریبا شاہد۔عمر :پندرہ سال (04)……محمد جاوید (02)……دعا شاہد۔ عمر:آٹھ سال (05)……محمد ماجد بیٹے (06)……عبدالستار (03)……زیان۔عمر: بارہ سال (07)……محمد عثمان (04)……روہان۔عمر: دو سال نوٹ: ہم دو چیزوں کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ (1) یہ موجودہ گھر کس کی ملکیت میں ہے؟ اور (2) موحوم کا ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟

Bete ki tarika ka taqseem

س: میرے بیٹے کا انتقال ہو چکا ہے اس کا ایک فلیٹ ہے جو میرے نام پر ہے اسے کس طرح تقسیم کریں

میرے بیٹے کی ایک بیوی ایک لڑکا ایک لڑکی اور میں بیوہ ماں ہوں

Mayyit ka dain ka mutaalaba karne waale ke paas koi suboot nahi

س: ایک دوست کی والدہ فوت ہو چکی ہیں۔ جب حیات تھیں تو ایک گھر سے کپڑے وغیرہ خریداری کرتی تھیں۔ اس گھر سے وفات کے کچھ عرصہ بعد پیغام ملا کہ اپکی والدہ نے کپڑے خریدے تھے اسکی رقم ادا نہیں کی جبکہ والدہ نے گھر والوں کوبتایا تھا کے میرے ذمہ کسی کا قرض نہیں ہے۔ گھر والوں نے بار بار کے اصرار پر رقم دینے کا ارادہ کر رکھا ہے کہ کہیں والدہ کو یاد نہ رہا ہو اور احتیاط کے طور پر ادا کر دیں۔ اس بات کے کچھ عرصہ بعد دوست کو خواب میں والدہ کی زیارت ہوئی جنہوں نے سبز لباس زیب تن کر رکھا تھا دوست نے خواب میں استفسار کیا کہ کیا آپ نے فلاں کے کپڑوں کی رقم ادا کرنی ہے یا نہیں تو والدہ نے جواب دیا کہ نہیں ادا کرنے۔ اس کے بعد خواب سے اچانک غائب ہو گئیں یہ خواب دوست نے صبح تہجد کے وقت میں دیکھا تھا۔ معلوم کرنا ہے کہ کیا دوست کو رقم خواہ کی ڈیمانڈ کے مطابق رقم ادا کر دینی چاہیے یا خواب میں والدہ نے کے نفی میں جواب کے مطابق عمل کرنا چاہیے، رہنمائی درکار ہے۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

Shohar ke intiqaal ke bad haqq-e-mahar aur shaadi ke sona ki taqseem

Q: Mere shohar ka intiqal ho chuka he aur iddat mukammal ho chuki he. Mere shohar ne mujhe haq meher ke allawa mooh dikhai par ek set pehenaya tha aur 6 churriyan walime par pehenai thi jo ke susral wale kehte he mushtaraka thi. Ab wo mera mooh dikhai ka set mere shohar ne jitne bhi sone ke tuhfe diye the aur churriyan wiraset mein taqseem karne ko keh rahe hen. Mere susral wale kehte hen ke haq meher ke allawa sab sona wiraset mein taqseem ho ga warison mein, bewa aur maa baap shamil hen. Aur salamiyon ke paiso ki mala banwai thi susral walon ne wo bhi le li ke hamari taraf se salamiyan ziyada thi. Quraan o hadees ki roshni mein meri rehnomai kare ke kiya ye sab tuhfe wiraset mein taqseem hote hen ya meri milkiyet he. Mere maa baap ne mere shohar ko 2 angothiyan ek rado ki gharri saas ko sone ka set nend ko sone ki angothi aur susar ko gharri pehenai thi. Is mein bhi meri rehnomai karen ke ye sab cheezen mere maa baap ko wapis hoti hen ya nai?

Ghar ki taqseem

Q: Mere susar ne apne paiso se ghar kharida aur wo ghar apne aur apne bhare bhai ke naam kardiya. Bad ma bhare bhai ka intiqal hogaya to susar ne bad ma bhare bhai ke jaga apni bhabi (marhooma) ka naam registered kar diya. Ab susar ka intiqal hogaya he aur bhai ke marhooma zinda he. Sharan ghar ke taqseem (hissa) kaisa hoga?

Meeraath ke zameen par tameer banana

Q: Mera masla hamara rehaishi house ke mutaliq hai. Jaha hum rehta hai hamara sath hamara chacha bhi rehta hai. Masla kuch is tarah hai ke jis jaga par hum rehta hai wo ghar hamara dada ki property thi, sirf zameen aur aaj us area ma sirf itna gaz zameen ki qeemat 25 se 30 lac hai aur us jaga ko mukamal mera walid na banaya hai. Woh 3 floors hai jis me se 2 kamra chacha ke pas hai air upar ke 2 floors hamara pas hai.

Ab us ghar ki 3rd floor bana huwa ki qeemat 70 se 80. Agar wo bana hewa na hota to us ki qeemat 25 se 30 hai aur mera walid ka ek bhai or 3 behen hai ab aap mujhe kuch is ke wazahat kara. Is me hamara kitna banega aur bakiyo ka kitna?

Wurasaa ke haaa-e-meerath nahi dena

Q: Mere baray 2 bhai choti umer se. Abu ke sath abu ki shop par kaam karnay lag gaye thay. Abu ne ghar khareeda or banaya. Phir abu burhay ho gaye to shop par jana chor diya. Uske baad bhaiyon ne jitni bhi property banaye wo abu ne bhaiyon ke naam kar di. Ab jab hum jo ghar abu ke naam par hai us me se wirasat se hissa ki baat kartay hain to bhai kehtay hain ye to ghar hamaray paison se liya hai. Hum choti umer se kaam karnay lag gaye thay abu sath or kehtay hain humne parhaya hai tum logon ko. Tum logon ka koi hissa nahi. Kiya hamara wirasat me koi haq nahi ya hum apna haq maang kar gunah kar rahay hain. Wo kehtay hain ami ka bhi haq nahi hai.

Mulaazim mar jaaye to company ka paise kis ko diya jaaye?

س: ایک شخص ہے ایکسیڈنٹ کی صورت میں وہ انتقال کر گیا ہے مذکورہ شخص شادی شُدہ تھا لیکن اولاد نہیں تھی اور وہ شخص ایک کمپنی میں ملازم تھا اب اس کے گھر والوں کو دو طرح کے پیسے ملیں گے ایک انشورنس کے اور دوسرا کمپنی دے گی اب اِن پیسوں پر اُس شخص کی صرف بیوی کا حق ہے یا والدین اور بہن بھائیوں کا بھی حق ہے