س: میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر ہوں میری عمر 63 سال ہے میری دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کی شادی ہوگئی ہے اور ایک بیٹے کی عنقریب ہونے لگی ہے میرے بچوں نے اعلی درجے کی تعلیم اور تربیت دین اور دنیاوی بھی حاصل کی ہے انگریزی اسکولوں میں پڑھے ہیں اور مدرسے سے بچیوں نے علم بھی حاصل کیا ہے
ایک افسر کی اولاد ہونے کی وجہ سے بچوں نے ایک خوشگوار بچپن گزارا ہے بڑا گھر گاڑی اور کام کرنے والے ملازمین اس کے باوجود گھر اور مدرسے سے بچوں کی تربیت کا خاص لحاظ رکھا گیا ہے کہ جب یہ اپنا گھر سنبھالیں تو کوئی پریشانی نہ ہو
میری چھوٹی بیٹی کا رشتہ میری زوجہ کے دور کے رشتے داروں کے گھر طے پایا آج سے تین سال پہلے اس کی ساس نے ہمیں سبز باغ دکھائے کہ میرا بیٹا بہت دیندار اور سمجھدار ہے ہمارا گھر کا ماحول دینی ہے ہم شرعی پردہ کرتے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے دینی اعتبار سے جو باتیں ضروری تھی ان کی تحقیق بھی کی اور بظاہر سب کچھ مناسب لگا مگر شادی کے تہوڑے ہی عرصے میں ہمیں معلوم ہو گیا کہ ان نے ہمیں دھوکے میں رکھا لڑکے کے معاش کے بارے میں جھوٹ بولا اپنے دینی ماحول اور شرعی پردے کے بارے میں جھوٹ بولا اور لڑکے کے بھی دیندار ہونے کا جھوٹ بولا
میرا داماد اور بیٹی فیصل آباد میں رہتے ہیں اور بیٹی کے سسرال راولپنڈی میں ہوتے ہیں ہر چھوٹی عید پر سسرال والے فیصل آباد عید منانے جاتے ہیں اور فیصل آباد والے گھر میں دو کمرے ہیں صحن ہیں اور ٹی وی لاؤنج ہے ایک کمرے میں اے سی لگا ہوا ہے تین سال ہو گئے ہیں ہر سال بیٹی کی ساس میری بیٹی کو مجبور کرتے ہیں کہ تم نے اسی اے سی والے کمرے میں 3 دیوروں سسر ساس اور شوہر کے ساتھ سونا ہے میری بیٹی کا چھوٹا دودھ پیتا بچہ تھا اس وقت بھی ان نے مجبور کیا اور زبردستی اس کو سلایا اور کہیں سے فتویٰ بھی لے کر آئیں کہ اس طرح سونا جائز ہے میری بیٹی نے بہت ادب اور پیار سے ان کو سمجھایا کہ آپ سب مہمان ہیں اے سی میں سو جائیں میں دوسرے کمرے میں سو جاتی ہوں لیکن وہ نہیں مانتے میری بیٹی جو کہ دینی مدرسہ سے علم حاصل کی ہوئی ہے اس کے لیے بہت مشکل ہے ایک ہی کمرے میں دیوروں کے ساتھ سونا۔
میں نے پہلے سال بیٹی کے سسر کو بہت احترام سے یہ بات سمجھائی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا اس سے اگلے سال داماد کو پیار سے علیحدگی میں سمجھایا اس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اس کے ساتھ میں نے سسر اور داماد کو کھلی اجازت دی کہ میری بیٹی سے اگر آپ کو کوئی تکلیف ہو مسئلہ ہو اور یہ نہ مانے تو آپ مجھے ضرور بتائیں تاکہ میں خود سمجھاوں۔ وہ ہر دفعہ میری بیٹی کی تعریف کرتے رہے کہ یہ بہت اچھی سلیقہ شعار اور عمل والی ہے اس سال عید پر دوبارہ ان نے ایک کمرے میں سلانے پر مجبور کیا اس کے ساتھ ساتھ اس کی ساس راولپنڈی میں رہتے ہوئے فیصل آباد میں ان کے گھر میں فون کے ذریعے اتنی مداخلت کرتی ہے کہ سالن بستر کی چادر اور ہر ہر چیز میں میں اس کی ساس کا دخل ہوتا ہے پھر وہ میری بیٹی کو اتنے برے برے طعنے دیتی ہے کہ میں زبان پر لانا مناسب نہیں سمجھتا
اب میرے داماد کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی ماں کی زیادتی سے اپنی بیوی کو بچاتا مگر وہ بلکل نہیں سمجھتا اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس سال میں اپنی بیٹی کو واپس اپنے گھر اچھے اور احسن طریقے سے بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے لے آیا ہوں تاکہ میرے داماد اور اس کی ماں کو کچھ سوچنے کا وقت ملے اور اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے آئندہ ایسا نہ کریں
اب سوال یہ ہے کہ۔
1. کیا میرا یہ قدم کے بیٹی کو واپس لے آنا تاکہ اس وقفے میں میری بیٹی کے سسرال والوں کو کچھ سمجھنے کا موقع ملے تو کیا یہ شرعی اِعتبار سے ٹھیک ہے
2. کیا اب میرے اور میری بیٹی کے سسرال والوں میں سے ایک ایک حاکم مقرر ہو جو شرعی شرائط مقرر کرے جو بین ذوجین ضرور ی ہیں کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ۔۔
3. اگر وہ پھر بھی ان شرائط پر عمل نہ کریں تو ہمارا کیا رویہ ان کے ساتھ ہونا چاہیے